فیصلے کی اس گھڑی کا التوا اچھا لگا
ایک رشتہ ٹوٹنے سے بچ گیا، اچھا لگا
جان من، جان وفا خط میں لکھا اچھا لگا
دور سے اس نے مجھے اپنا کہا، اچھا لگا
میں نے غم کی دھن بھی چھیڑی اور خوشی کا راگ بھی
تم بتاؤ گیت میرا کون سا اچھا لگا؟
مجھ میں کیا جوہر مِرے ٹوٹے ہوئے آئینے کو
آج اس نے چاند کا ٹکڑا کہا، اچھا لگا
ایک دن آئی تو پھر واپس نہ تنہائی گئی
میرے اجڑے گھر میں اس کو جانے کیا اچھا لگا
دل نہ چھوڑے گا ضدیں یہ تو وہ بالک ہے جسے
اک کھلونا مل گیا تو دوسرا اچھا لگا
پیش کر دیں میں نے فکر و فن کی تصویریں ہزار
خود پسندوں کو مگر اک آئینہ اچھا لگا
چاندنی یادوں کی تھی پروین آنسو کیوں بہائے
کیا کفن پہ تجھ کو موتی ٹانکنا اچھا لگا
پروین کیف
No comments:
Post a Comment