محبت کے سفر میں بیٹھ جاتے تو نہیں ہیں
کسی کو اس سفر میں پر تھکاتے تو نہیں ہیں
کسی کو تم ستاؤ یہ محبت میں ہے جائز
کسی کو اس قدر لیکن رُلاتے تو نہیں ہیں
اندھیرا کر دیا تُو نے ذرا سا رُخ بدل کر
سیہ شب میں چراغوں کو بُجھاتے تو نہیں ہیں
محبت اک پرندہ ہے قفس میں کیوں نہ رکھوں
جسے ہم قید کرتے ہیں، اُڑاتے تو نہیں ہیں
کبھی آنسو نکل پڑتے ہیں ان کی بات سے بس
ہمارا دل وہ اتنا بھی دُکھاتے تو نہیں ہیں
محبت مجھ سے کرتے ہو محبت ہے یہ کیسی
محبت میں کسی کو بُھول جاتے تو نہیں ہیں
سُنا ہے صبح کا بُھولا پلٹ آتا ہے شبنم
مگر بیتے زمانے لوٹ آتے تو نہیں ہیں
شبنم کنول
No comments:
Post a Comment