خواب خیموں کو بچانے میں بہت دیر لگی
راکھ کے ڈھیر اٹھانے میں بہت دیر لگی
شہر کا شہر ہی بازار میں در آیا تھا
بھیڑ لوگوں کی ہٹانے میں بہت دیر لگی
دو دھڑے ہو تو گئے ایک ہی چھت کے نیچے
دل کو دیوار اٹھانے میں بہت دیر لگی
کتنے دروازے کھلے ایک ہی در کے اندر
مجھ کو اس آئینہ خانے میں بہت دیر لگی
رات کی سرد ہوا تیز بہت تھی حیدر
آگ پتھر سے جلانے میں بہت دیر لگی
حیدر سلیم
No comments:
Post a Comment