Tuesday, 28 May 2024

میں درد ہوں ہزار میرے رنگ روپ ہیں

 میں درد ہوں ہزار میرے رنگ روپ ہیں

زخمِ جگر میں ہوں، میں کبھی چشمِ میں ہوں

کہنے کو ساحلوں کو مناظر ہیں سامنے

میں پھر بھی اپنی سوچ کے اندھے بھنور میں ہوں

مجھ کو مسافتوں کی تھکن زیر کر نہ جائے

شب کا سفر ہے، اور تلاشِ سحر میں ہوں

چہروں پہ خوف آنکھوں میں رقصِ اجل کا عکس

دشتِ بلا میں ہوں کہ میں تیرے شہر میں ہوں

رنجش سہی، مگر مجھے تم دیکھتے تو ہو

معتوب ہوں، مگر میں تمہاری نظر میں ہوں


نزہت صدیقی

No comments:

Post a Comment