نئی رُتیں ہیں زمانے بدلنے والے ہیں
سنا ہے غم کے فسانے بدلنے والے ہیں
خزاں رسیدہ چمن میں اُداس شاخوں پر
پرندے اپنے ٹھکانے بدلنے والے ہیں
وہ جن کے پیار میں گُزری ہے زندگی میری
مِرے وہ دوست پرانے بدلنے والے ہیں
نئے ہیں سارے تقاضے نئی ہے راہ وفا
محبتوں کے ترانے بدلنے والے ہیں
عدو سے کوئی بھی خطرہ نہیں رہا ہم کو
کہ دوست اپنے نشانے بدلنے والے ہیں
بدل رہی ہے کئی کروٹیں جبیں ان کی
نیا جنوں ہے فسانے بدلنے والے ہیں
تم اپنا طرزِ محبت بدل بھی لو عاصم
وفا کے طور پرانے بدلنے والے ہیں
عاصم ممتاز
No comments:
Post a Comment