یہ بہاروں میں چمن کی داستاں ہو جائے گا
غنچہ معصوم کانٹوں میں جواں ہو جائے گا
خار میری حسرتوں کے آپ کے جلووں کے پھول
یہ بہم ہو جائیں تو، اک گلستاں ہو جائے گا
آپ بھی روشن رکھیں اپنی محبت کے چراغ
یہ دِیے گل ہو گئے تو پھر دھواں ہو جائے گا
مثبت و منفی اشاروں سے ترا پہلا پیام
بے تکلم ہی نوشتِ داستاں ہو جائے گا
اجنبی سے اس لیے دامن بچاتا ہوں ضیاء
آشنا ہونے سے پہلے رازداں ہو جائے گا
ضیاء عزیزی جے پوری
سید خورشید علی
No comments:
Post a Comment