وہ نازِ التفات و عنایت نہیں رہی
دنیا میں اب کسی سے محبت نہیں رہی
چہرہ شناسی عدسے کی محتاج کیوں نہ ہو
سچ بولنے کی ہم کو جو عادت نہیں رہی
یہ کتنے دکھ کی بات ہے تم کو نہیں پتا
اب مجھ کو میرے دل سے شکایت نہیں رہی
گریہ گزار دل کو اچانک یہ کیا ہوا
کیوں میرے آنسوں میں طہارت نہیں رہی
یہ میرے واسطے بڑی حیرت کی بات ہے
مجھ کو اب اس گلی سے عقیدت نہیں رہی
وہ بھی نہیں مناتا مجھے ہاتھ تھام کر
مجھ کو بھی روٹھ جانے کی عادت نہیں رہی
مہدی بخاری
No comments:
Post a Comment