اندھیر نگری
اندھیر نگری کی شاہزادی
تلاشتی رہی اجالے
وہ چاہتی تھی کہ
کاش سورج طلوع ہو ایسا
جو اس کی نگری کا گھپ اندھیرا
اپنی کرنوں سے بھسم کر دے
اسے خبر تھی سیاہ رُتوں کے
امین لوگوں کو مات دینا سہل نہیں ہے
مگر وہ سر پر کفن کو باندھے
تلاش کرتی رہی اجالے
اندھیر نگری کے ہمنواؤں نے
چال ایسی چلی کہ اس کو
گھپ اندھیرے میں جا سُلایا
اداس لوگوں کی آنکھ میں بھی
امید کی جو اک چمک تھی
وہ مر گئی ہے
ایسا لگتا ہے وہ چمک بھی
ساتھ اس کے دفن ہوئی ہے
شکیل انجم لاشاری
No comments:
Post a Comment