اس لیے دربار تک آنے میں کچھ تاخیر کی
جان نکلی جا رہی تھی پاؤں میں زنجیر کی
اس جگہ پر بددعائیں دفن ہیں زیرِ زمیں
جس جگہ پر سانس رکتی ہے تری جاگیر کی
مار ڈالوں گا تری گریہ و زاری کی قسم
اے مرے یوسف بتا کس نے تری تحقیر کی؟
آج یاد آئی بہت ساون کی بارش اور تو
دیر تک بجتی رہی پائل تری تصویر کی
ہار تجھ کو مان لینا چاہیے تھی اس گھڑی
جب مری رگ سے کٹی گردن تری شمشیر کی
میں نے سینے پر لیا ہے اور تم میرے نصیر
بس صدا سنتے رہے تھے سنسناتے تیر کی
نصیر بلوچ
No comments:
Post a Comment