آپ آئے مرے گھر میں یہی بات بہت ہے
اک بھول سہی، بہرِ ملاقات بہت ہے
اک جنبشِ موہوم ذرا شیریں لبوں کو
اے راحتِ جاں! تلخئ حالات بہت ہے
اُلجھاؤ نہ زُلفوں سے دمکتے ہوئے عارض
کچھ چاندنی برسے کہ ابھی رات بہت ہے
اب سرد چناروں سے بھی آنچ آنے لگی ہے
اے شعلۂ جاں! گرمئ جذبات بہت ہے
ہم سادہ مزاجوں کی عقیدت سے نہ کھیلو
نظروں سے کھنچے آئے یہی گھات بہت ہے
اب پھر نہ سجاؤ یہ بساطِ غمِ دوراں
شاہِ دلِ غمگیں کو یہی مات بہت ہے
دو اشک تِری آنکھ سے ٹوٹے ہیں جو طاہر
جذبات کے صحرا میں یہ برسات بہت ہے
طاہر سعید ہارون
No comments:
Post a Comment