عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ستارہ میری قسمت کا ذرا دیکھو کہاں ٹھہرا
خدا ہے مدح خواں جس کا میں اُس کا مدح خواں ٹھہرا
وہ لمحہ جس میں تُو دریا سے پیاسا ہی نکل آیا
حیاتِ خضرؑ سے پوچھوں کہ وہ کتنا گراں ٹھہرا
تِری یادوں کے صدقے دل قریبِ عرش تھا کتنا
یہاں سے آہ اُٹھی اور وہاں جا کر دُھواں ٹھہرا
بلندی تن سے کٹ کر بھی مقدّر میں رہی اُس کے
سرِ عباسؑ غازی تھا، سرِ نوکِ سناں ٹھہرا
خدا کے شیر کی جُرأت ہوئی عباسؑ کا ورثہ
مشرف آئینہ تھا اس لیے جوہر یہاں ٹھہرا
فرازِ پرچمِ عباسؑ پر اک مشک دیکھی ہے
ابو طالب کا دریائے وفا جا کر کہاں ٹھہرا
بجھیں شمعیں، ملا بھی اذنِ رخصت لیکن اے کوثر
حضورِ حُسن میں وہ عشق پھر بھی کامراں ٹھہرا
کوثر نقوی
No comments:
Post a Comment