ہم نے جس کے لیے پھولوں کے جہاں چھوڑے ہیں
اس نے اس دل میں فقط زخم نہاں چھوڑے ہیں
ہم نے خود اپنے اصولوں کی حفاظت کے لیے
دولتیں چھوڑ دیں شہرت کی جہاں چھوڑے ہیں
زندگی ہم نے تِرا ساتھ نبھانے کے لیے
تپتے صحرا میں بھی قدموں کے نشاں چھوڑے ہیں
ہم کسی اور کے ہو جائیں کسی کو چاہیں
ایسے اسباب مگر اس نے کہاں چھوڑے ہیں
جس کی پرچھائی لیے پھرتی ہیں آنکھیں میری
اس نے پلکوں پہ مِری آبِ رواں چھوڑے ہیں
مینا خان
نسیم خانم
No comments:
Post a Comment