Monday, 20 May 2024

ہم نے جس کے لیے پھولوں کے جہاں چھوڑے ہیں

 ہم نے جس کے لیے پھولوں کے جہاں چھوڑے ہیں

اس نے اس دل میں فقط زخم نہاں چھوڑے ہیں

ہم نے خود اپنے اصولوں کی حفاظت کے لیے

دولتیں چھوڑ دیں شہرت کی جہاں چھوڑے ہیں

زندگی ہم نے تِرا ساتھ نبھانے کے لیے

تپتے صحرا میں بھی قدموں کے نشاں چھوڑے ہیں

ہم کسی اور کے ہو جائیں کسی کو چاہیں

ایسے اسباب مگر اس نے کہاں چھوڑے ہیں

جس کی پرچھائی لیے پھرتی ہیں آنکھیں میری

اس نے پلکوں پہ مِری آبِ رواں چھوڑے ہیں


مینا خان

نسیم خانم

No comments:

Post a Comment