ان کا جب تیرِ نظر یاد آیا
رو دئیے زخمِ جگر یاد آیا
جب اسے میں نے بُھلانا چاہا
اور وہ رشکِ قمر یاد آیا
کیا کہوں وحشتِ زندانِ فراق
کبھی صحرا، کبھی گھر یاد آیا
میرا کہنا؛ مجھے خط لکھیے گا
ان کا کہنا کہ؛ اگر یاد آیا
ان کے وعدوں کا یقیں کر ماہر
آ ہی جائیں گے اگر یاد آیا
ماہر آروی
ش م عارف
No comments:
Post a Comment