اپنی اوقات تُو دِکھائے گا
کر کے سازش مجھے گِرائے گا
تجھ سے بس زہر کی توقع ہے
ناگ تریاق کیا پِلائے گا
دین اس کی ہے عزت و ذِلت
تُو مِرا کیا بگاڑ پائے گا
بس کماتا ہے گِن کے رکھتا ہے
کیا کِھلائے گا، کیا تُو کھائے گا
وعدے اچھے دنوں کے کر کے تُو
کیا پتہ تھا ہمیں رُلائے گا
اُس سے اُمید خیر کی کیا ہو
وہ فسادی ہے بس لڑائے گا
اس میں دانش ہیں خیر و شر دونوں
دیکھیے، کیا یہ گُل کِھلائے گا
ایوب بیگ دانش
No comments:
Post a Comment