ہم فقیروں کی جیب خالی ہے
یاد لیکن تِری بچا لی ہے
آسماں سے کوئی خیال اترے
ذوق یا رب مِرا سوالی ہے
راز پنہاں تھے سب خزاؤں کے
خشک پتوں نے بات اچھالی ہے
تیری یادوں سے بھاگنا کیسا
بس توجہ ذرا ہٹا لی ہے
لوگ آتے ہیں ڈُوب جاتے ہیں
ذات قُلزم جو اب بنا لی ہے
نُورِ یزداں کا طُور پہ جا کر
ہم نے دیکھا مُراد پا لی ہے
عشق حاصل بھی اور لا حاصل
رات روشن بھی اور کالی ہے
صائم جی
No comments:
Post a Comment