کوئی افسانۂ زندان سناتا ہے مجھے
اور جینے کی تدابیر بتاتا ہے مجھے
ایک ہی دکھ ہے کہ دیوار سے لگ کر کوئی
روئے جاتا ہے مجھے، گھورتا جاتا ہے مجھے
ایک سایہ ہے مِرا، ڈل کے کنارے بیٹھا
اور ہر روز وہ اُس پار بُلاتا ہے مجھے
یہ جو موسم کا چلن عین تِرے جیسا ہے
یہ تو ہر روز تِرے خواب دکھاتا ہے مجھے
رنج و آلام کی تعظیم مجھے آتی ہے
اس پہ کہنے کا سلیقہ بھی تو آتا ہے مجھے
وقت سے قبل وہ آتا ہے ہمیشہ باسط
پر بتانے کو بہت دیر بتاتا ہے مجھے
باسط علی راجہ
No comments:
Post a Comment