دنیا نے کسوٹی پر تا عمر کسا پانی
بنواس سے لَوٹا تو شعلوں پہ چلا پانی
ہر لفظ کا معنی سے رشتہ ہے بہت گہرا
ہم نے تو لکھا بادل اور اس نے پڑھا پانی
جنت تھی مگر ہم کو جھک کر نہ اٹھانی تھی
شانے پہ رہا چہرہ، چہرے پہ رہا پانی
تن بھی نہ بچا کورا، میں بھی نہ بچا کورا
اِس بار کے ساون میں کیا جم کے گِرا پانی
اِک موم کے قالِب میں دھاگے کا سفر دنیا
اپنے ہی گلے لگ کر رونے کی سزا پانی
ہر ایک سکندر کا انجام یہی دیکھا
مٹّی میں ِلی مٹّی پانی میں ملا پانی
مشتاق احمد نوری
No comments:
Post a Comment