تھک کے بیٹھا تھا کہ منزل نظر آئی مجھ کو
حوصلہ دینے لگی آبلہ پائی مجھ کو
نذر کر دیتے ہیں وہ اپنی کمائی مجھ کو
سر اٹھانے نہیں دیتے مِرے بھائی مجھ کو
میں جہاں جاتا ہوں اس پیکر نوری کے سوا
اور کچھ بھی نہیں دیتا ہے دکھائی مجھ کو
اس ستم پیشہ نے قربت کا نہ مرہم رکھا
عمر بھر دیتا رہا زخم جدائی مجھ کو
مشکلوں میں بھی مِرے حوصلے شاداب رہے
روک سکتی ہی نہیں وقت کی کھائی مجھ کو
میں تو ہر سانس کو دیتا رہا جینے کا خراج
زندگی پھر بھی کبھی راس نہ آئی مجھ کو
اس سے برہم میں نہیں پھر بھی مگر میرا حریف
عمر بھر دیتا رہا اپنی صفائی مجھ کو
تیرے آنے کی خبر نے مجھے بے چین رکھا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
اسی امید پہ مرمر کے جئے جاتا ہوں
وہ مری قید سے کب دے گا رہائی مجھ کو
مجھ سے کچھ سننے پہ آمادہ نہ تھی خلق خدا
عمر بھر اس نے مگر اپنی سنائی مجھ کو
اک نئے غم سے شناسا کیا محرومی نے
زندگی جب بھی تِری بزم میں لائی مجھ کو
وہ بھی شرمندہ نظر آتا ہے نوری اکثر
نظر آتی ہی نہیں جس میں بُرائی مجھ کو
مشتاق احمد نوری
No comments:
Post a Comment