Sunday, 12 May 2024

تھک کے بیٹھا تھا کہ منزل نظر آئی مجھ کو

 تھک کے بیٹھا تھا کہ منزل نظر آئی مجھ کو 

حوصلہ دینے لگی آبلہ پائی مجھ کو 

نذر کر دیتے ہیں وہ اپنی کمائی مجھ کو 

سر اٹھانے نہیں دیتے مِرے بھائی مجھ کو 

میں جہاں جاتا ہوں اس پیکر نوری کے سوا 

اور کچھ بھی نہیں دیتا ہے دکھائی مجھ کو 

اس ستم پیشہ نے قربت کا نہ مرہم رکھا 

عمر بھر دیتا رہا زخم جدائی مجھ کو 

مشکلوں میں بھی مِرے حوصلے شاداب رہے 

روک سکتی ہی نہیں وقت کی کھائی مجھ کو 

میں تو ہر سانس کو دیتا رہا جینے کا خراج 

زندگی پھر بھی کبھی راس نہ آئی مجھ کو 

اس سے برہم میں نہیں پھر بھی مگر میرا حریف 

عمر بھر دیتا رہا اپنی صفائی مجھ کو 

تیرے آنے کی خبر نے مجھے بے چین رکھا 

سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو 

اسی امید پہ مرمر کے جئے جاتا ہوں 

وہ مری قید سے کب دے گا رہائی مجھ کو 

مجھ سے کچھ سننے پہ آمادہ نہ تھی خلق خدا 

عمر بھر اس نے مگر اپنی سنائی مجھ کو 

اک نئے غم سے شناسا کیا محرومی نے 

زندگی جب بھی تِری بزم میں لائی مجھ کو 

وہ بھی شرمندہ نظر آتا ہے نوری اکثر 

نظر آتی ہی نہیں جس میں بُرائی مجھ کو 


مشتاق احمد نوری

No comments:

Post a Comment