حقیقت سامنے تھی اور حقیقت سے میں غافل تھا
مِرا دل تیرا جلوہ تھا، تِرا جلوہ مِرا دل تھا
ہوا نظارہ لیکن یوں کہ نظارہ بھی مشکل تھا
جہاں تک کام کرتی تھیں نگاہیں طور حائل تھا
رہا جان تمنا بن کے جب تک جان مشکل تھا
نہ تھی مشکل تو اس کے بعد پھر کچھ بھی نہ تھا دل تھا
نظر بہکی، حجاب اٹھا، ہوئی اک روشنی پیدا
پھر اس کے بعد بچنا کیا سنبھلنا سخت مشکل تھا
حجاب معصیت پردہ ہی کس کے نور عرفاں کا
کہ جنت سے جدا رہ کر بھی میں جنت میں داخل تھا
بچا کر کیوں ڈبویا نا خدا نے اس سفینہ کو
انہیں موجوں میں طوفاں تھا انہیں موجوں میں ساحل تھا
سجود بندگی بے کار،۔ عجز عشق لا حاصل
یہ سچ ہے میں تِرے قابل، نہ تھا تُو میرے قابل تھا
حقارت سے جسے ٹُھکرا دیا برگشتہ شعلوں نے
وہی پروانۂ بے کس فروغ شمع محفل تھا
نشان منزل مقصود جو آغاز میں پایا
وہی صحرا بہ صحرا تھا وہی منزل بمنزل تھا
سفینہ ڈُوبنے کے بعد ان باتوں سے کیا حاصل
جو دریا تھا تو دریا تھا جو ساحل تھا تو ساحل تھا
وہ میرے پاس تھا شوکت تو میں نے کیوں نہیں دیکھا
جو وہ میرے مقابل تھا تو میں کس کے مقابل تھا
شوکت تھانوی
No comments:
Post a Comment