اِس شان سے وہ آج پئے امتحاں چلے
فتنوں نے پاؤں چُوم کے پوچھا، کہاں چلے
کیا پوچھتے ہو ہجر کے مارے کہاں چلے
آتے نہیں پلٹ کے جہاں سے وہاں چلے
کس صید پہ لیے ہوئے تیر و کماں چلے
میں تو یہاں ہوں سینہ سپر، تم کہاں چلے
نالہ اِدھر کھنچا، اُدھر اشک رواں چلے
جیسے صدا جرس کی ہو اور کارواں چلے
اپنی ادائے نیم نگاہی کا واسطہ
لے بےخبر خبر کہ تِرے نیم جاں چلے
کچھ تو لحاظ ساتھ کا منزل میں چاہیے
ہم ناتواں ہیں تیز نہ عمرِ رواں چلے
کیا یاد ہم کریں گے کہ آئے تھے وقتِ نزع
اتنا بھی تو نہ آپ نے پوچھا، کہاں چلے
بیٹھے ہیں لوگ دیر سے آمادۂ سفر
چلنا اگر ہے تیغ کو قاتل تو ہاں چلے
ہر گھونٹ پر نکلتی ہے دل سے مِرے دعا
تا دورِ آفتاب یہ مَے کی دوکاں چلے
اُٹھتا ہوں میں جو دشت سے جانے کو اے جنوں
کہتے ہیں خار تھام کے دامن، کہاں چلے
اپنی رگِ گلو ہے کہ اک شاہراہ ہے
خنجر چلے، چُھری چلے، تیغِ رواں چلے
احسان ہے کشاکشِ امید و بیم کا
اے جان آج تک جو تِرے نیم جاں چلے
آنکھوں میں کون آ کے الٰہی نکل گیا
کس کی تلاش میں مِرے اشکِ رواں چلے
کتنی ہی دیر رہ کے وہ جانے کا نام لیں
کہتا ہے دل یہی کہ ابھی سے کہاں چلے
رکھے خدا سدا تمہیں حاجت روائے خلق
رکھنا ہمیں بھی یاد جو تیغِ رواں چلے
گویا تھا انتظار تمہارا ہر ایک کو
چُھریاں چلیں، کٹار چلی، تم جہاں چلے
سودائے زُلف یار سے پیچھا نہ چھٹ سکا
سائے کی طرح ساتھ چلا، ہم جہاں چلے
راہِ طلب میں شوق کا اپنے یہ حال ہے
بیٹھا کہیں میں تھک کے تو اشکِ رواں چلے
سنتے ہیں پہنچے گور کنارے تِرے مریض
اتنا بھی گر چلے تو بہت ناتواں چلے
ہمراہ ساتھیوں کے ہمارا یہ حال ہے
جیسے غُبارِ راہ پسِ کارواں چلے
بحرِ جہاں کی سیر بھی ہونا ضرور ہے
آہستہ اپنی کشتئ عمر رواں چلے
جتنے اٹھے تھے خاک سے پھر خاک ہو گئے
محشر میں اس ادا سے سے وہ دامن کشاں چلے
جس جا گرے وہیں کے ہوئے تیرے ناتواں
نقشِ قدم کی چال پسِ کارواں چلے
قاتل گلوئے خُشک دکھاؤں نہ کیا کروں
دریا کی موج بن کے جو تیغِ رواں چلے
کیا بات ہے پہنچ کے جو منزل پہ لے قرار
کوئی چلے تو صورتِ عُمر رواں چلے
جینے کی بات کوئی مجھے سوجھتی نہ تھی
احسان آپ کا ہے کہ دے کر زباں چلے
دم توڑتا ہے عشق میں جب کوئی درد مند
کہتا ہے درد، چھوڑ کے مجھ کو، کہاں چلے
جب میں چلوں تو سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے
جب تم چلو، زمین چلے، آسماں چلے
ذکرِ حبیب سے ہو نہ غفلت کبھی جلیل
چلتا رہے یہ کام بھی جب تک زباں چلے
جلیل مانکپوری
No comments:
Post a Comment