باغِ دل میں کوئی غنچہ نہ کِھلا تیرے بعد
بھول کر آئی نہ اس سمت صبا تیرے بعد
تیری زلفوں کی مہک تیرے بدن کی خوشبو
ڈھونڈتی پھرتی ہے اک پگلی ہوا تیرے بعد
وہی میلے وہی پنگھٹ وہی جھولے وہی گیت
گاؤں میں پر کوئی تجھ سا نہ ملا تیرے بعد
اندھی راتوں کی سیاہی مِرا مقدور ہوئی
کوئی تارا مِرے آنگن نہ گِرا تیرے بعد
دے دیا اپنے دل و جان کا اک اک قطرہ
اور کیا چاہتی ہے تیری صدا تیرے بعد
جسم میرا تھا مگر روح کا مالک تھا اور
کیسی عیاری کا یہ راز کھلا تیرے بعد
حد امکان تلک کرنیں وفا کی بکھریں
جسم میرا کئی زخموں سے سجا تیرے بعد
تُو ہی غالب نہیں اک جور فلک کا مارا
میرے گھر آیا ہے طوفان بلا تیرے بعد
کسی خوش فہمی میں رہتا ہے تو بدنام نظر
کون رکھے گا تجھے یاد بھلا تیرے بعد
بدنام نظر
سلطان عالمگیر
No comments:
Post a Comment