پتھروں کے درمیاں بہتی ندی اچھی لگی
جب حصار غم میں گزری زندگی اچھی لگی
ایک پتھر پھینکنے پر گاؤں کے تالاب میں
پُر سکوں موجوں کی اکثر برہمی اچھی لگی
شب کی تنہائی میں دروازے پہ دستک دفعتاً
گُھپ اندھیرے میں اچانک روشنی اچھی لگی
بخشی ہے چاندنی کہرے کو بھی تابانیاں
اس کے چہرے پر اداسی ہی سہی اچھی لگی
جس طرح چاہا تصور نے تراشا وہ بدن
بستر احساس پر اس کی کمی اچھی لگی
درمیاں کانٹوں کے بھی شاداب تھے مسرور تھے
جانے کیوں پھولوں کی یہ شائستگی اچھی لگی
اب کے ہم بھٹکے تو راہ راست پر آجائیں گے
سیدھے رستے سے معظم گمرہی اچھی لگی
معظم علی
No comments:
Post a Comment