Monday, 13 May 2024

صبح خیرات کے آنگن میں غریبی ہو گی

 عید کا چاند دیکھ کر


صبح خیرات کے آنگن میں غریبی ہو گی

پھر وہی صدقۂ جاں اب کے برس پائیں گے

اور ہر دست مخیر میں چمکتے سکے

ملگجے جسموں کی حالت پہ ترس کھائیں گے

غم کے تپتے ہوئے صحرا پہ خوشی کے بادل

بے ارادہ ہی سر راہ برس جائیں گے

تیرہ بختی کی منڈیروں پہ امیدوں کے چراغ

پھر رعونت کی ہواؤں سے جلا مانگیں گے

بھوک کی گرد میں لپٹے ہوئے سیمیں پیکر

ننگ احساس صعوبت سے قبا مانگیں گے

پھر ہوس جو کسی ادھ ننگی جوانی کی طرف

اپنی پھینکی ہوئی چادر کا صلہ مانگیں گے

فاقہ مستی ہی مقدر ہے تو آخر اک دن

پیٹ کی آگ بجھانے کی ضرورت کیا ہے

سالہا سال کی بوسیدہ روایت کے عوض

دولت غم کو لٹانے کی ضرورت کیا ہے

بھیک کے پیسوں کو دستار انا میں رکھ کر

ساتھیو عید منانے کی ضرورت کیا ہے

اور اگر عید منانا ہے تو جان غربت

سنگ محنت سے یہ کشکول ضلالت توڑو

بھیک پر جینے سے بہتر ہے خودی پر مرنا

یہ حصار روش اہل عنایت توڑو

ماہ قرآں کے فضائل کی قسم ہے تم کو

آج خیرات پہ جینے کی روایت توڑو


معظم علی

No comments:

Post a Comment