عید کا چاند دیکھ کر
صبح خیرات کے آنگن میں غریبی ہو گی
پھر وہی صدقۂ جاں اب کے برس پائیں گے
اور ہر دست مخیر میں چمکتے سکے
ملگجے جسموں کی حالت پہ ترس کھائیں گے
غم کے تپتے ہوئے صحرا پہ خوشی کے بادل
بے ارادہ ہی سر راہ برس جائیں گے
تیرہ بختی کی منڈیروں پہ امیدوں کے چراغ
پھر رعونت کی ہواؤں سے جلا مانگیں گے
بھوک کی گرد میں لپٹے ہوئے سیمیں پیکر
ننگ احساس صعوبت سے قبا مانگیں گے
پھر ہوس جو کسی ادھ ننگی جوانی کی طرف
اپنی پھینکی ہوئی چادر کا صلہ مانگیں گے
فاقہ مستی ہی مقدر ہے تو آخر اک دن
پیٹ کی آگ بجھانے کی ضرورت کیا ہے
سالہا سال کی بوسیدہ روایت کے عوض
دولت غم کو لٹانے کی ضرورت کیا ہے
بھیک کے پیسوں کو دستار انا میں رکھ کر
ساتھیو عید منانے کی ضرورت کیا ہے
اور اگر عید منانا ہے تو جان غربت
سنگ محنت سے یہ کشکول ضلالت توڑو
بھیک پر جینے سے بہتر ہے خودی پر مرنا
یہ حصار روش اہل عنایت توڑو
ماہ قرآں کے فضائل کی قسم ہے تم کو
آج خیرات پہ جینے کی روایت توڑو
معظم علی
No comments:
Post a Comment