Monday 6 May 2024

کتبہ کل جو قبرستان سے لوٹا

 کتبہ


کل جو قبرستان سے لوٹا

تو تنہائی کا اک بوجھ اٹھا کر لایا

ایسے لگتا تھا کہ میں بجھتا دیا ہوں

اور سب لوگ تماشائی ہیں

منتظر ہیں کہ مرے بجھنے کا منظر دیکھیں

ایسے لگتا تھا کہ ہر گام پر کھلتے دہانے ہیں

مرے جسم کو آغوش میں لینے کے لیے

زندگی دور کھڑی ہنستی رہی

قہقہوں کا اک سمندر

میری جانب موج در موج بڑھا

شب کا سناٹا

فلک بوس عمارات کے ڈربوں میں وہ ہلتے ہوئے سائے

جیسے مرگھٹ کا سماں ہو

راستے ناگ کی مانند دہانے کھولے

کہیں فٹ پاتھ پہ لیٹے ہوئے بے جان سے جسم

جن پہ کھمبے یوں کھڑے تھے

جیسے یہ کتبے گڑے ہوں

پھر اچانک وہ بریکوں کی کریچ

سرخ خوں کا ایک فوارہ

وہ اک کتے کی لاش

زندگی ایک طلسمات کدہ

جس کی دیواروں کی زینت کے لیے

لمحوں کی رنگی تتلیاں پتھر ہوئیں


اعجاز فاروقی

No comments:

Post a Comment