Monday 6 May 2024

غیر کا بھی مری حالت پہ جگر کٹتا ہے

 غیر کا بھی مری حالت پہ جگر کٹتا ہے

میں اگر جسم بچاتا ہوں تو سر کٹتا ہے

یہ جو چڑھ دوڑے ہیں بستی پہ محافظ اس کے

لگ رہا ہے کہ نگر بارِ دگر کٹتا ہے

پاؤں زنجیر کرو،۔ راستے دیوار کرو

ارے نادان! کبھی یوں بھی سفر کٹتا ہے

جسم کٹ جائے تو رہتا ہے سلامت پھر بھی

گھر کی عزت پہ ستم ہو تو بشر کٹتا ہے

غور سے دیکھ مجھے، صبر کے اسرار سمجھ

لالئ چشم سے افسونِ شرر کٹتا ہے

یہ نہ ہو اب مجھے تلوار اٹھانی پڑ جائے

زہر کا زہر سے کہتے ہیں اثر کٹتا ہے

تیری عزت بھی اتاروں گا جواباً اب میں

جسم چِرتا ہے مِرا، آج یا سر کٹتا ہے

اس طرح کاٹوں گا میں تیرے ارادوں کی رگیں

جس طرح خیر کی تلوار سے شر کٹتا ہے

خون بہتا ہوا میں دیکھ رہا ہوں ہر سُو

فصلِ بے سود کی مانند نگر کٹتا ہے

حشر اس کا بُرا ہوتا ہے مِرے دل کی طرح

بے ہُنر ہاتھ میں آ کر جو گُہر کٹتا ہے

دیکھ کر سہمی ہوئی گلیاں سسکتے بازار

دل بہت صابر و شاکر ہے، مگر کٹتا ہے

تجھ کو مزدور کی طاقت کا نہیں ہے احساس

شہر کٹ جاتا ہے جب دستِ ہنر کٹتا ہے

تہ بہ تہ کاٹتا جاتا ہے کئی پرتوں کو

ایک لمحہ جو سرِ خوف و خطر کٹتا ہے

نہیں کٹتا، یہ نہیں کٹتا، نہیں ہے کٹتا

ایک اک پل جو تِرے مدِ نظر کٹتا ہے

زخم کچھ ایسا لگا ہے کہ مسلسل فرحت

میرے اشکوں سے مِرا دیدۂ تر کٹتا ہے


فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment