Monday 6 May 2024

بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

 بات کوئی امید کی، مجھ سے نہیں کہی گئی

سو مرے خواب بھی گئے، سو میری نیند بھی گئی

دل کا تھا ایک مدعا، جس نے تباہ کر دیا

دل میں تھی ایک ہی تو بات وہ جو فقط سہی گئی

جانیے کیا تلاش تھی، جون مِرے وجود میں

جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی

ایک خوشی کا حال ہے خوش سخناں کے درمیاں

عزت شائقین غم تھی جو رہی سہی گئی

بود و نبود کی تمیز، ایک عذاب تھی کہ تھی

یعنی تمام زندگی، دھند میں ڈوبتی گئی

اس کے جمال کا تھا دن میرا وجود اور پھر

صبح سے دھوپ بھی گئی رات سے چاندنی گئی

جب میں تھا شہر ذات کا تھا مِرا ہر نفس عذاب

پھر میں وہاں کا تھا جہاں، حالتِ ذات بھی گئی

گردفشاں ہوں دشت میں سینہ زناں ہوں شہر میں

تھی جو صبائے سمت دل، جانے کہاں چلی گئی

تم نے بہت شراب پی، اس کا سبھی کو دکھ ہے جون

اور جو دکھ ہے وہ یہ ہے، تم کو شراب پی گئی


جون ایلیا

No comments:

Post a Comment