Wednesday, 1 May 2024

مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں

 زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں

کوفے والوں کو مدینے میں لیے پھرتا ہوں

جانے کب کس کی ضرورت مجھے پڑ جائے کہاں

آگ اور خاک سفینے میں لیے پھرتا ہوں

ریت کی طرح پھسلتے ہیں مِری آنکھوں سے

خواب ایسے بھی خزینے میں لیے پھرتا ہوں

ایک ناکام محبت مِرا سرمایہ ہے

اور کیا خاک دفینے میں لیے پھرتا ہوں

دل پہ لکھا ہے کسی اور پری زاد کا نام

نقش اک اور نگینے میں لیے پھرتا ہوں

اس لیے سب سے الگ ہے مِری خوشبو عامی

مُشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں


عمران عامی

No comments:

Post a Comment