ساقیا دے بھی مئے روح افزا تھوڑی سی
بے وفا عمر کرے اور وفا تھوڑی سی
ہم تو اُس آنکھ کے ہیں دیکھنے والے دیکھو
جس میں شوخی ہے بہت اور حیا تھوڑی سی
وعدۂ غیر پہ کیا ہوتی ہے جلدی اُن کو
ہاتھ دھو ڈالتے ہیں مَل کے حنا تھوڑی سی
نغمہ دِل کش ہو تو دَم ساز دمِ عیسٰی ہے
کبھی آ جاتی ہے کانوں میں صدا تھوڑی سی
تم مرے جُرم کی تفصیل نہ پوچھو مجھ سے
کہ خطا وار بتاتا ہے خطا تھوڑی سی
ابھی بتخانے کے سجدوں سے تو فرصت ہولے
جا کے مسجد میں بھی کر لیں گے اَدا تھوڑی سی
مرگِ فرہاد پہ حسرت سے کہا شیریں نے
عمر عاشق ہی کو دیتا ہے خدا تھوڑی سی
وائے تقدیر گرے ٹوٹ کے ناخن اپنے
رہ گئی تھی گرہ بندِ قبا تھوڑی سی
آئے ہمسائے میں وہ گو نہ یہاں تک آئے
آج مقبول ہوئی میری دُعا تھوڑی سی
بعد مُردن مرے مرقد میں بنا دیں روزن
آتی جاتی رہے دُنیا کی ہوا تھوڑی سی
مُنصفی شرط ہے آخر کوئی کب تک بخشے
روز ہو جاتی ہے بھُولے سے خطا تھوڑی سی
داغ یہ مے ہے، یہ ساغر ہے، کہاں کی توبہ
پی خدا کے لیے اے مردِ خدا تھوڑی سی
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment