روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں
کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں
ہر ایک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہیے
ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں
کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ
وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں
حریف اپنا اگر سر جھکا کے ملتا ہے
تو ہم بھی تیغ کو زیب نیام کرتے ہیں
مجھے خبر بھی نہیں ہے کہ ایک مدت سے
وہ میرے خانۂ دل میں قیام کرتے ہیں
حقیقتوں کو جنہیں سن کے وجد آ جائے
کچھ ایسے کام بھی ان کے غلام کرتے ہیں
شراب کم ہو تو نوری بہ نام تشنہ بھی
لہو نچوڑ کے لبریز جام کرتے ہیں
مشتاق احمد نوری
No comments:
Post a Comment