وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے
اکیلا بیٹھ کے پہروں جو سوچتا تھا مجھے
میں اس کے پاس سے گزرا تو یہ ہوا محسوس
وہ دھوپ سر پہ لیے چھاؤں دے رہا تھا مجھے
الٹ رہا تھا مِری زندگی کے وہ اوراق
کسی کتاب کی مانند پڑھ رہا تھا مجھے
اسی میں دیکھ رہا تھا میں اپنا عکس خیال
وہ ایک چہرہ کہ جو آئینہ لگا تھا مجھے
اب اس کی یاد لیے پھر رہا ہوں شہر بہ شہر
کبھی سکون کا لمحہ جو دے گیا تھا مجھے
وہ شخص میرے توجہ کا بن گیا تھا مدار
نہ جانے کون سا منظر دکھا رہا تھا مجھے
میں اس کے جسم کا سایہ تھا سر بسر خالد
جو روشنی کا سمندر سا لگ رہا تھا مجھے
خالد رحیم
No comments:
Post a Comment