جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے
آگ سے نکلے تو انگارہ بنے
شام کی بھیگی ہوئی پلکوں میں پھر
کوئی آنسو آئے اور تارا بنے
لوح دل پہ نقش اب کوئی نہیں
وقت ہے آ جاؤ شہ پارا بنے
اب کسی لمحہ کو منزل مان لیں
در بدر پھرتے ہیں بنجارا بنے
کم ہو گر جھوٹے ستاروں کی نمود
یہ زمیں بھی انجمن آرا بنے
جرم ناکردہ گناہی ہے بہت
زندگی ہی کیوں نہ کفارہ بنے
توڑ ڈالیں ہم نظام خستگی
یہ جہاں کہنہ دوبارا بنے
حنیف فوق
No comments:
Post a Comment