گل حسنا
ملک صاحب کے گھر سے
اس کو فرصت تو نہ ملتی تھی
مگر پھر بھی
وہ جانے کتنی دو پہروں
کئی مصروف شاموں سے
چُرایا وقت لے کر آ نکلتا تھا
گھروں گلیوں میں پھرتا تھا
وہ ہر گھر میں ذرا سی دیر رُکتا
چائے پیتا اور
فرمائش یہ لوگوں کو ہنساتا
جو کوئی بُوڑھی دادی ماں
اُسے کچھ کام کہہ دیتی
تو وہ سینے پہ اپنا ہاتھ رکھ کر
یہ کہا کرتا؛ نہیں جی! کیوں نہیں
آخر محلے بھر کا خادم ہوں
ملک صاحب کے ابا جان
ستّر سال سے اوپر تھے
جب گھر میں چُھپی تنہائی
تن کر سامنے آئی
تو وہ یک دم بکھر جائے
یہی وہ وقت ہوتا
جب حـسن (جس کو سبھی گُل حسنا کہتے تھے)
انہیں پھر بے وفا دنیا میں لے آتا اور آتے ہی
سیاسی تبصروں کو
کچھ اپنی فہم کا تڑکا لگا کر پیش کرتا
یہ بھاشانی عجب منطق کا بندہ ہے
اور اس کے ساتھ
باچا خان کو دیکھو
ہمہ وقت اس ریاست کی
خداوندی پہ حرفِ نا مُرادی لکھتا رہتا تھا
سنا ہے سیز فائر ہونے والا ہے
مگر اپنا یہ دیسی توپ خانہ تو کبھی خاموش نہ ہو گا
یہ کہہ کر مسخروں کی طرح وہ بازو ہِلاتا
ناچ کر اک جست بھرتا
اور ہوا کا ایک گولا داغ دیتا تھا
(خدا بخشے) ملَک صاحب کے ابا جان
اپنی بے ارادہ مسکراہٹ کو چُھپانے کی سعی کرتے
اور اُس کو گالیاں دیتے
مگر اندر سے کہہ دیتے
اگر بد صُورتی سے کوئی صورت حُسن کی نکلے
تو اس میں کیا بُرائی ہے
کئی برسوں کے بعد اک بار پھر ایسا ہُوا
اپنے ملک صاحب اکیلے ہیں
جواں بیٹے سمندر پار ملکوں میں گئے ایسے
کہ پھر واپس نہیں آئے
اگرچہ پیسے ویسے کی کمی ان کو نہیں
شاید ضرورت اور شے کی ہے
اکیلے اپنے بستر پر
پڑے یہ سوچتے ہیں
ہم بھی ہنستے تھے
مگر یہ بھی حقیقت ہے
ہمیں ہنسنا نہیں آیا
نہ جانے کتنے برسوں سے
ہمارے گھر میں گُل حسنا نہیں آیا
محمد یامین
No comments:
Post a Comment