جب تلک آنکھ کو لگایا نہیں
وہ مِرے خواب تک میں آیا نہیں
اس لیے ٹھیک دیکھ سکتا ہوں
آنکھ کو بے سبب بہایا نہیں
کُھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہوں
نیند کو میں نے آزمایا نہیں
تُو مِرے ساتھ ساتھ رہتا ہے
تُو مِرا دوست ہے، تُو سایا نہیں
صاف سیدھی لکیر کھینچتا ہوں
سانپ کو ہاتھ تک لگایا نہیں
بات کی تہہ میں تھا پہنچنا مجھے
اس لیے بات کو گُھمایا نہیں
حفیظ اللہ بادل
No comments:
Post a Comment