Wednesday, 1 May 2024

کبھی سورج بھی نکلے گا ابھی سورج نہیں نکلا

 کبھی سُورج بھی نکلے گا


ابھی سورج نہیں نکلا

سڑک پر گاڑیوں کے قافلے آئے نہیں

لیکن دِہاڑی دار مزدوروں کا اک سَیلِ بدن مایہ

اُمڈ کر چوک میں آیا

بدن پر میل میں لپٹی ہزاروں سلوٹیں پہنے

پھٹے پیروں میں ٹھنڈی خاک کے جُوتے

تھکے ہاتھوں میں پچھلی شام کی روٹی

لبوں پر رات کی کترن

سروں پر سوچ کی دھجی

تھکی آنکھوں میں کچی نیند کی گٹھڑی

لکیروں اور ہنر سے خالی ہاتھوں میں فقط دس انگلیاں لائے

سُہانی نیند سے اُمید سب کو کھینچ لائی ہے

کوئی آجر اُنہیں روٹی کے بدلے ساتھ لے جائے

کوئی آئے

تو سب کی بجھتی آنکھوں میں

بھڑک کر دیپ جلتے ہیں

سبھی پھر دائرہ دَر دائرہ اُس پر

اُمیدوں سے بھری آنکھوں کے نیزے گاڑ دیتے ہیں

وہ اس انداز میں نظریں گُھماتا ہے

تنومندی پرکھتا ہے

قروُنِ جہل میں جیسے غُلاموں کا ہو بیوپاری

کوئی خوش جسم اُس کے ساتھ جاتا ہے

تو باقی سب کی امیدوں پہ چھائے بھوک کے سائے

گھنیرے کرتا جاتا ہے

کئی بوڑھوں کی آنکھوں میں جوانی جِھلملاتی ہے

اُمیدیں اور سگرِٹ ختم ہو جائیں

تو سب بے جان ہاتھوں سے

شکن اندر شکن لپٹی گزشتہ شام کھاتے ہیں 

اور آنکھوں میں یہ دُکھ لے کر

گھروں کو لوٹ جاتے ہیں

کہ اُن کا کوئی بھی آقا

نویدِ بندگی لے کر نہیں آیا


شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment