Wednesday, 1 May 2024

ہے سوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں

 مِری نظر مِرا اپنا مشاہدہ ہے کہاں

جو مستعار نہیں ہے وہ زاویہ ہے کہاں

اگر نہیں تِرے جیسا تو فرق کیسا ہے

اگر میں عکس ہوں تیرا تو آئینہ ہے کہاں

ہوئی ہے جس میں وضاحت ہمارے ہونے کی

تِری کتاب میں آخر وہ حاشیہ ہے کہاں

یہ ہمسفر تو سبھی اجنبی سے لگتے ہیں

میں جس کے ساتھ چلا تھا وہ قافلہ ہے کہاں

مدار میں ہوں اگر میں تو ہے کشش کس کی

اگر میں خود ہی کشش ہوں تو دائرہ ہے کہاں

تِری زمین پہ کرتا رہا ہوں مزدوری

ہے سُوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں

ہُوا بہشت سے بے دخل جس کے باعث میں

مِری زبان پر اس پھل کا ذائقہ ہے کہاں

ازل سے ہے مجھے درپیش دائروں کا سفر

جو مستقیم ہے یا رب! وہ راستہ ہے کہاں

اگرچہ اس سے گُزر تو رہا ہوں میں عاصم

یہ تجربہ بھی مِرا اپنا تجربہ ہے کہاں


عاصم واسطی

No comments:

Post a Comment