Wednesday, 1 May 2024

بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا

 زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا

بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا

میرے قاتل سے کوئی اے کاش اتنا پوچھ لے

یہ زمیں میرے لہو سے پاک ہو جائے گی کیا

ہر طرف عریاں تنی کے جشن ہوں گے روز و شب

اس قدر تہذیب نو بے باک ہو جائے گی کیا

بڑھ گیا سایہ اگر قد سے تو بڑھنے دیجئے

خاک اڑ کر ہمسر افلاک ہو جائے گی کیا

قید ہستی سے بہ مشکل ہو سکا تھا میں رہا

میری مٹی کاسہ گر کا چاک ہو جائے گی کیا

ساری دنیا ڈھل رہی ہے مغربی تہذیب میں

بے حیائی اب مِری پوشاک ہو جائے گی کیا

واقعی دریائے غم کے تیز دھاروں میں رضا

زندگی میری خس و خاشاک ہو جائے گی کیا


رضا مورانوی

No comments:

Post a Comment