Wednesday, 1 May 2024

سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے

 اپنی آنکھوں پر وہ نیندوں کی ردا اوڑھے ہوئے 

سو رہا ہے خواب کا اک سلسلہ اوڑھے ہوئے 

سردیوں کی رات میں وہ بے مکاں مفلس بشر 

کس طرح رہتا ہے اکلوتی ردا اوڑھے ہوئے 

اک عجب انداز سے آئی لحد پر اک دلہن 

چوڑیاں توڑے ہوئے دست حنا اوڑھے ہوئے 

خیر مقدم کے لیے بڑھنے لگیں میری طرف 

منزلیں اپنے سروں پر راستہ اوڑھے ہوئے 

پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی 

سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے 

تیری یادوں کے چراغوں نے کیا جھک کر سلام 

جب چلی آندھی کوئی زور ہوا اوڑھے ہوئے 

بھیڑ میں گم ہو گیا اک روز شارب کا وجود 

ڈھونڈتا ہے جسم پر اپنا پتا اوڑھے ہوئے 


شارب مورانوی

No comments:

Post a Comment