کُوزے میں خواہ لائے کوئی بحر و بر کی بات
سُنتا یہاں پہ کون ہے آشفتہ سر کی بات
دل کی، زباں پہ آئی تو محسوس یُوں ہُوا
بازار میں ہو آ گئی جس طرح گھر کی بات
بہکا نہ پائے گا ہمیں لفظوں کا ہیر پھیر
پڑھنے لگی ہے اب تو نظر ہی نظر کی بات
سب کی چمک دمک کا مقرر ہے ایک وقت
تارے یہ سُن رہے ہیں ازل سے قمر کی بات
ظلمت کدے کے باسیو! سُن لو یہ غور سے
جرمِ عظیم ہے یہاں کرنا سحر کی بات
تاریکیوں میں بھٹکیں ہمیشہ وہ کور چشم
نا معتبر سمجھتے ہیں جو دِیدہ ور کی بات
جذبات میں ہو صِدق تو انداز اور ہو
ہوتی نہیں ہے پُختہ کبھی بام و در کی بات
رعشہ زدہ ہیں پیری میں اعضائے جِسم اب
شاید انہوں نے سُن لی پُرانے کھنڈر کی بات
اپنے جہاں کی فِکر میں غلطاں ہیں ہم ابھی
دیکھو! کرو نہ ہم سے جہانِ دِگر کی بات
ثاقب! کتابِ زِیست ہےازبر ہمیں، تو اب
بے فائدہ ہے ہم سے اِدھر کی، اُدھر کی بات
ثاقب علوی
No comments:
Post a Comment