Friday, 17 May 2024

ہمارے دکھ پرانے ہو گئے ہیں

 ہمارے دُکھ پرانے ہو گئے ہیں

اُسے بُھولے زمانے ہو گئے ہیں

طلب میری زیادہ تو نہیں ہے

تِرے خالی خزانے ہو گئے ہیں

ہزاروں تِیر اندازوں سے بچتے

نگاہوں کے نشانے ہو گئے ہیں

ملاقاتیں بہانے ڈھونڈتی ہیں

بچھڑنے کے بہانے ہو گئے ہیں

تمارے نام سے مطلب نکالیں

عیانے بھی سیانے ہو گئے ہیں

کسی کے نام پر قربان، احمد

گھرانے کے گھرانے ہو گئے ہیں


فیصل احمد

No comments:

Post a Comment