Friday, 17 May 2024

خود ہمیں مرغوب تھی جب رسم رسوائی بہت

 خود ہمیں مرغوب تھی جب رسمِ رُسوائی بہت

دیر تک ہنستے رہے ہم پر تماشائی بہت

جانے ساحل کی ہوا نے ریت پر کیا لکھ دیا

بادلوں کی آنکھ بھی اس بار بھر آئی بہت

سارا دن اس کو بُھلانے کی تگ و دو میں کٹا

شام کے سائے ڈھلے تو اس کی یاد آئی بہت

اپنے کاندھوں پر اٹھائے اپنی شہرت کی صلیب

در بدر ہیں اس کے کوچے کے تمنائی بہت

ہم تو سیلانی ہیں لوٹیں یا نہ لوٹیں کیا خبر؟

تُو سلامت ہے تو مل جائیں گے شیدائی بہت


شرافت عباس

No comments:

Post a Comment