خوشی کے ساتھ اُٹھے سر خوشی کے ساتھ چلے
یہ ہم بھی کیا ہیں جو آیا اسی کے کے ساتھ چلے
تمام عمر نہ بدلا تِرے مزاج کا رنگ
تمام عمر تِری بے رُخی کے ساتھ چلے
عجب نہیں کہ چلے ہم سراب کی جانب
عجب تو یہ ہے کہ دریا دلی کے ساتھ چلے
جو ایک خوابِ مسلسل میں کر رہا ہے سفر
وہ شخص کیسے مِری آگہی کے ساتھ چلے
یہ ہم بھی کیا ہیں تلاشا کیے جسے اک عمر
وہ مل گیا تو پھر ہم اور کسی کے ساتھ چلے
شرافت عباس
No comments:
Post a Comment