اس کو پانا کبھی آسان کہاں ہوتا ہے
عشق میں وصل کا امکان کہاں ہوتا ہے
دل سے نکلوں بھی تو اُس ذہن میں آ جاتا ہوں
یعنی نفرت کا بھی نقصان کہاں ہوتا ہے
شکر ہے اس کی نظر ہم کو میسر ہے میاں
ورنہ ہر درد کا درمان کہاں ہوتا ہے
دیکھ لیتا ہوں اسے راہ میں ہنستا، ورنہ
اپنی راحت کا بھی سامان کہاں ہوتا ہے
کر ہی لیتا ہوں میں ہمدردیاں حاصل اس کی
جُھوٹی قسموں کا بھی نقصان کہاں ہوتا ہے
اس کو دکھلاؤ یہ اُمید سے خالی آنکھیں
جو بھی کہتا ہے بیابان کہاں ہوتا ہے؟
دل تو وہ گھر ہے کہ آسیب بھی رُکتا نہیں یاں
اس سے بڑھ کر کوئی ویران کہاں ہوتا ہے
زوہیر عباس
No comments:
Post a Comment