یہ مِرا جُرم ہے اور اس کی سزا گولی ہے
دورِِ ظُلمت میں چراغوں کی دُکاں کھولی ہے
اس کو کہتے ہیں میاں ہاتھ کا خالی ہونا
نہ کوئی دُکھ ہے مِرے پاس نہ ہمجولی ہے
کون آباد کرے آ کے یہاں بستی کو؟
دشت زادوں نے یہاں خاک بہت رولی ہے
اور کیا رختِ سفر باندھ کے لاتی گھر سے
اک اُداسی تھی وہی ساتھ مِرے ہو لی ہے
اب سبھی پیڑ بتاتے ہیں مجھے اپنے غم
میں نے کچھ روز پرندوں کی زباں بولی ہے
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment