جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی
افسوس ہر بساط سے باہر لگی ہوئی
اس کی تپش نے اور بھی سلگا رکھا ہے کچھ
جو آگ ہے مکان سے باہر لگی ہوئی
سنتے ہیں اس نے ڈھونڈ لیا اور کوئی گھر
اب تک جو آنکھ تھی تِرے در پر لگی ہوئی
پہچان کی نہیں ہے یہ عرفان کی ہے بات
تختی کوئی نہیں مِرے گھر پر لگی ہوئی
اب کے بہار آنے کے امکان ہیں کہ ہے
ہر پیرہن پہ چشم رفو گر لگی ہوئی
اس بار طول کھینچ گئی جنگ اگر تو کیا
اس بار شرط بھی تو ہے بڑھ کر لگی ہوئی
منحوس ایک شکل ہے جس سے نہیں فرار
پرچھائیں کی طرح سے برابر لگی ہوئی
تیرے ہی چار سمت نہیں ہے حصار جبر
پابندئ جمال ہے سب پر لگی ہوئی
جمال احسانی
No comments:
Post a Comment