Tuesday, 14 May 2024

جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی

 جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی

افسوس ہر بساط سے باہر لگی ہوئی

اس کی تپش نے اور بھی سلگا رکھا ہے کچھ

جو آگ ہے مکان سے باہر لگی ہوئی

سنتے ہیں اس نے ڈھونڈ لیا اور کوئی گھر

اب تک جو آنکھ تھی تِرے در پر لگی ہوئی

پہچان کی نہیں ہے یہ عرفان کی ہے بات

تختی کوئی نہیں مِرے گھر پر لگی ہوئی

اب کے بہار آنے کے امکان ہیں کہ ہے

ہر پیرہن پہ چشم رفو گر لگی ہوئی

اس بار طول کھینچ گئی جنگ اگر تو کیا

اس بار شرط بھی تو ہے بڑھ کر لگی ہوئی

منحوس ایک شکل ہے جس سے نہیں فرار

پرچھائیں کی طرح سے برابر لگی ہوئی

تیرے ہی چار سمت نہیں ہے حصار جبر

پابندئ جمال ہے سب پر لگی ہوئی


جمال احسانی

No comments:

Post a Comment