سورج ڈھلنے میں تھوڑی دیر باقی ہے
ابھی چند ساعتوں کے بعد
شام کے سائے گزرگاہوں پر پھیلنے لگیں گے
اور ٹریفک کسی مریض کے دل کی طرح
خودبخود تیز ہوجائے گی
پرندے جب شام کو آشیانوں کی طرف لوٹتے ہیں
تو ہمیں یہ بھی یاد نہیں آتا
کہ زندگی ہم سے کتنی دور ہوگئی ہے
ننھی چڑیا چوں چوں کرتی
اپنے بچے کو دانہ کھلا رہی ہے
اسے میرے کمرے کی
ویرانی تو پسند نہ ہو گی
مگر شہروں میں چڑیوں اور کبوتروں کے
اپنے فلیٹوں اور بینکوں کی
اونچی اونچی چھتوں کے علاوہ
اور کوئی جگہ بھی تو نہیں ہے
تنہائی کسی ویران گوشے میں
اونگھتے اونگھتے یکایک جاگ جاتی ہے
اور دیوار سے کود کر
میرے بستر میں چھپ جاتی ہے
معلوم نہیں وہ شامیں
جب چائے کا ذائقہ اچھا لگتا تھا
اب کن قہوہ خانوں میں بھٹک رہی ہوں گی
ایک دفعہ تم نے مجھے لکھا تھا
آج کل شام کو کس وقت چائے پیتے ہو
میں ٹھیک اسی وقت چائے پیا کروں گی
اور دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سوچا کریں گے
محبت کو ایسی حماقت آمیز باتیں کرنے کا کتنا شوق ہوتا ہے
تب تم محبت کی حماقت کو نہیں سمجھتی تھیں
صرف بچے، شاعر اور دیوانے ہی جانتے ہیں
کہ دکھائی نہ دینے والی چیزیں
دکھائی دینے والی چیزوں سے
زیادہ اہم اور بامعنی ہوتی ہیں
اور بوسوں کو گننے سے
کوئی مالدار نہیں ہوجاتا
اور ذائقے کی موت سے پہلے
کوئی سوچتا بھی نہیں
کہ چائے کا ایک گھونٹ بھی
کتنا قیمتی ہو سکتا ہے
کتنی باتیں تھیں جنہیں میں بھول گیا
کیونکہ اب تو بچوں کو بھی یاد نہیں
دھنک کے رنگ کیسے ہوتے ہیں
یادیں راکھ میں دبی چنگاریوں کی طرح
کریدنے سے چمک اٹھتی ہیں
مگر آن کی آن میں انہیں بھی راکھ بنا دیتی ہیں
کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے
میں زندہ ہوجاتا ہوں
اور بیتی ہوئی ہر شام
اپنی ایک ایک ساعت کو یوں دہرانے لگتی ہے
جیسے وہ لمحے ابھی تک گزرے نہیں ہیں
اور وقت تمہاری مسکراہٹ کی طرح دائمی ہو گیا ہے
زندہ تو صرف وہی چیزیں ہیں
جنہیں محبت نے زندہ کیا ہو
ورنہ مسکراہٹ کی ننھی ننھی کونپلوں کو
اور پاؤں کے نیچے محسوس ہونے والی
اوس کی نمی کو کون یاد رکھتا ہے
ہر شام میں اپنی بکھری ہوئی زندگی
ٹوٹے ہوئے شیشے کی کرچوں کی طرح
سمیٹنے میں زخمی ہو جاتا ہوں
اور پھر سوچتا ہوں
شاید زندگی، زخم اور محبت
تینوں ایک ہی چیز کے نام ہیں
سلیم احمد
No comments:
Post a Comment