Wednesday 8 May 2024

سورج ڈھلنے میں تھوڑی دیر باقی ہے

 سورج ڈھلنے میں تھوڑی دیر باقی ہے

ابھی چند ساعتوں کے بعد

شام کے سائے گزرگاہوں پر پھیلنے لگیں گے

اور ٹریفک کسی مریض کے دل کی طرح

خودبخود تیز ہوجائے گی

پرندے جب شام کو آشیانوں کی طرف لوٹتے ہیں 

تو ہمیں یہ بھی یاد نہیں آتا

کہ زندگی ہم سے کتنی دور ہوگئی ہے

ننھی چڑیا چوں چوں کرتی

اپنے بچے کو دانہ کھلا رہی ہے

اسے میرے کمرے کی

ویرانی تو پسند نہ ہو گی

مگر شہروں میں چڑیوں اور کبوتروں کے

اپنے فلیٹوں اور بینکوں کی

اونچی اونچی چھتوں کے علاوہ

اور کوئی جگہ بھی تو نہیں ہے

تنہائی کسی ویران گوشے میں 

اونگھتے اونگھتے یکایک جاگ جاتی ہے

اور دیوار سے کود کر

میرے بستر میں چھپ جاتی ہے

معلوم نہیں وہ شامیں

جب چائے کا ذائقہ اچھا لگتا تھا

اب کن قہوہ خانوں میں بھٹک رہی ہوں گی

ایک دفعہ تم نے مجھے لکھا تھا

آج کل شام کو کس وقت چائے پیتے ہو

میں ٹھیک اسی وقت چائے پیا کروں گی

اور دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سوچا کریں گے

محبت کو ایسی حماقت آمیز باتیں کرنے کا کتنا شوق ہوتا ہے

تب تم محبت کی حماقت کو نہیں سمجھتی تھیں 

صرف بچے، شاعر اور دیوانے ہی جانتے ہیں

کہ دکھائی نہ دینے والی چیزیں

دکھائی دینے والی چیزوں سے

زیادہ اہم اور بامعنی ہوتی ہیں

اور بوسوں کو گننے سے

کوئی مالدار نہیں ہوجاتا

اور ذائقے کی موت سے پہلے

کوئی سوچتا بھی نہیں

کہ چائے کا ایک گھونٹ بھی

کتنا قیمتی ہو سکتا ہے

کتنی باتیں تھیں جنہیں میں بھول گیا

کیونکہ اب تو بچوں کو بھی یاد نہیں

دھنک کے رنگ کیسے ہوتے ہیں

یادیں راکھ میں دبی چنگاریوں کی طرح

کریدنے سے چمک اٹھتی ہیں

مگر آن کی آن میں انہیں بھی راکھ بنا دیتی ہیں 

کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے

میں زندہ ہوجاتا ہوں

اور بیتی ہوئی ہر شام

اپنی ایک ایک ساعت کو یوں دہرانے لگتی ہے

جیسے وہ لمحے ابھی تک گزرے نہیں ہیں

اور وقت تمہاری مسکراہٹ کی طرح دائمی ہو گیا ہے

زندہ تو صرف وہی چیزیں ہیں

جنہیں محبت نے زندہ کیا ہو

ورنہ مسکراہٹ کی ننھی ننھی کونپلوں کو

اور پاؤں کے نیچے محسوس ہونے والی

اوس کی نمی کو کون یاد رکھتا ہے

ہر شام میں اپنی بکھری ہوئی زندگی 

ٹوٹے ہوئے شیشے کی کرچوں کی طرح

سمیٹنے میں زخمی ہو جاتا ہوں

اور پھر سوچتا ہوں

شاید زندگی، زخم اور محبت 

تینوں ایک ہی چیز کے نام ہیں


سلیم احمد

No comments:

Post a Comment