چشمِ پُر نم ابھی مرہونِ اثر ہو نہ سکی
زندگی خاک نشینوں کی بسر ہو نہ سکی
مےکدے کی وہی مانوس فضا اور دلِ زار
ایک بھی رات با اندازِ دِگر ہو نہ سکی
غمِ جاناں، غمِ دوراں کی گزرگاہوں سے
گزرے کچھ ایسے کہ خود اپنی خبر ہو نہ سکی
دُھندلے دُھندلے نظر آتے تو ہیں قدموں کے نشاں
گرچہ پْر نُور ابھی راہگزر ہو نہ سکی
زندگی جام بکف آئی بھی محفل میں مگر
شب کے متوالوں کو توفیقِ نظر ہو نہ سکی
کیسے تابندہ ستاروں کا لہو جلتا ہے
شبِ تاریک جو عنوانِ سحر ہو نہ سکی
حنیف فوق
No comments:
Post a Comment