ترکِ اُلفت میں ہے آرام بہت
گُل رخو! ہو چکے بدنام بہت
ہم ہی نادان تھے جرأت نہ ہوئی
کوئی آیا تو لبِ بام بہت
ہو مقدر تو قدم چُومے گی
سمتِ منزل تو ہیں دو گام بہت
ٹِمٹماتے ہیں گئی رات دِیے
جگمگاتے تھے سرِ شام بہت
بُھول جاتا ہوں میں خود کو اکثر
یاد آتے ہیں کئی نام بہت
دیدہ ور فرق سمجھ لیں شاید
یوں معظم کے ہیں ہمنام بہت
معظم علی
No comments:
Post a Comment