عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
انقلابِ ایران
سلام قوم کے احساسِ حق پسندی کو
سلام گردشِ طوفاں میں تختہ بندی کو
سلام عزمِ خمینی کی فتح مندی کو
سلام پرچمِ ایران کی سر بلندی کو
سکوت قوم کا جھنکار بن گیا آخر
لہو غریبوں کا تلوار بن گیا آخر
سمجھ رہا تھا زمانہ یہ قومِ گریہ ُکناں
رہینِ شیوہ و ماتم اسیرِ وہم و گماں
نہ تیغ اٹھے گی اس سے نہ چل سکے کی سناں
بھلا یہ قوم کہاں اور انقلاب کہاں
مگر اٹھی تو ستم کا زجاج پھینک دیا
اتار کر سرِ ظالم سے تاج پھینک دیا
سر آسمانوں کا خم کردیا زمینوں نے
گہر بنا لیا مزدور کے پسینوں نے
خراج لے لیا طوفان سے سفینوں نے
پہاڑ توڑ دئیے اٹھ کے آبگینوں نے
جنازہ کفر کا نکلا ہے آستانوں سے
اذاں بلند ہوئی ہے شراب خانوں سے
پیام اعظمی
سید قنبر حسین
No comments:
Post a Comment