نفرت کی آگ لگائے ہوئے ہیں لوگ
مہرو وفا کا درس بُھلا ئے ہوئے ہیں لوگ
مشکل ہے گلستاں میں گزر عندلیب کا
ہراک قدم پہ دام بچھا ئے ہوئے ہیں لوگ
اس شہر بے اماں میں تو جینا محال ہے
مقتل گلی گلی میں سجا ئے ہوئے ہیں لوگ
یہ ارتقائے ذہن کا حدِ کمال ہے
سورج کو اک چراغ بنائے ہوئے ہیں لوگ
واعظ ہے کوئی، شیخ کوئی، محتسب کوئی
کیا کیا نہ آ ج بھیس بنائے ہوئےہیں لوگ
فرصت کسے ہے داد ہُنر جو کسی کو دے
جادو خود اپنے فن کا جگائے ہوئے ہیں لوگ
آساں نہیں جمیل عبادت کہ آج کل
معبود ہر صنم کو بنائے ہوئے ہیں لوگ
جمیل عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment