یہاں ہر شخص اپنے گھر سے کم باہر نکلتا ہے
بدن کھو بیٹھنے کے ڈر سے کم باہر نکلتا ہے
کوئی سودا مِرے سر میں سماتا ہی نہیں، لیکن
سما جائے تو پھر وہ سر سے کم باہر نکلتا ہے
جہاں سورج برس میں ایک یا دو دن چمکتا ہو
وہاں سایہ کسی پیکر سے کم باہر نکلتا ہے
زمینیں ڈوب جانا چاہتی ہیں پیاس ایسی ہے
مگر سیلاب ہی ساگر سے کم باہر نکلتا ہے
وہ جس حیوان کو پتھر کے اندر رزق ملتا ہو
وہ پتھر کا ہے اور پتھر سے کم باہر نکلتا ہے
نہ جانے کتنی آوازیں بلاتی ہیں اسے، لیکن
یہ سنّاٹا مِرے اندر سے کم باہر نکلتا ہے
ابھی آکاش کا رشتہ نہیں ٹوٹا زمینوں سے
مگر وہ ابر کی چادر سے کم باہر نکلتا ہے
امداد آکاش
No comments:
Post a Comment